س15: ایمان کے ارکان کی وضاحت کرو۔

ج- اللہ تعالی پر ایمان:

آپ اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالی نے ہی آپ کو پیدا کیا ہے، روزی دی ہے اور وہی اکیلا تمام مخلوقات کا مالک اور مدبر ہے۔

وہی عبادت کے لائق ہے، کوئی اور نہیں۔

وہ عظیم ہے، بڑا ہے، ایساکامل ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کے لیے لائق وزیبا ہے، اس کے بہترین نام اور عالی صفتیں ہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور کوئی اس کے جیسا نہیں، اس کی ذات پاکیزہ ہے۔

فرشتوں پر ایمان:

یہ اللہ کی مخلوقات ہیں جنہیں اللہ تعالی نے نور سے اپنی عبادت اور اپنے حکم کی مکمل تعمیل کے لیے پیدا کیا ہے۔

ان میں سے ایک فرشتہ جبریل علیہ السلام ہیں جو نبیوں کے پاس وحی لاتے ہیں۔

آسمانی کتابوں پر ایمان:

یہ وہ کتابیں ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے رسولوں پر نازل کیں۔

جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا۔

عیسی علیہ السلام پر انجیل۔

موسی علیہ السلام پر تورات۔

داود علیہ السلام پر زبور۔

صحف ابراہیم کو اہیم علیہ السلام پر اور صحف موسى کو موسی علیہ السلام پر۔

رسولوں پر ایمان:

یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے پاس بھیجا تاکہ انہیں تعلیم دیں، بھلائی اور جنت کی خوشخبری سنائیں اور برائی اور جہنم سے ڈرائیں۔

ان میں سب سے افضل اولو العزم ہیں، اور وہ ہیں:

نوح علیہ السلام۔

ابراہیم علیہ السلام۔

موسی علیہ السلام۔

عیسی علیہ السلام۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

آخرت کے دن پر ایمان:

اور یوم آخرت: موت کے بعد قبر کے اندر کی زندگی، قیامت کے دن اور قبروں سے اٹھاۓ جانے اور حساب وکتاب کے دن کو شامل ہے،جب جنتی اپنے محلوں میں اور جہنمی اپنے ٹھکانوں میں قرار پکڑیں گے۔

بھلی بری تقدیر پر ایمان:

تقدیر: اس بات کے اعتقاد کو کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی کائنات میں وقوع پذیر ہوتا ہے اللہ تعالی کو اس کا علم ہے، اس نے اسے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے، اس نے اس کے وجود میں آنے کو چاہا اور اسے پیدا کیا۔

فرمان باری تعالی ہے: (بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقررہ وقت پر پیدا کیا ہے) [سورۃ القمر: 49]

تقدیر کے چار مراتب ہیں:

پہلا: اللہ تعالی کا علم، جس میں یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کو ہر چیز کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہے، اس کے وقوع سے پہلے بھی اور اس کے وقوع کے بعد بھی۔

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: "بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم واﻻ اور صحیح خبروں واﻻ ہے"۔ [سورۂ لقمان: 34]

دوسرا: کہ اللہ تعالی نے یہ سب لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے، چنانچہ جو کچھ بھی ہوتا ہے یا ہوگا سب اللہ کے یہاں تحریر شدہ ہے۔

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: "اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ سمندر میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔"[59] [ سورۂ أنعام: 59]

تیسرا: ہر چیز اللہ تعالی کی مشیت کے تابع ہے، جو کچھ بھی اس کی یا اس کی کسی مخلوق کی جانب سے صادر ہوتا ہے وہ اس کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: "اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راه پر چلنا چاہےاور تم بغیر رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے"۔ [سورۂ تکویر: 28، 29]

چوتھا: پوری کائنات اللہ تعالی کی مخلوق ہے، اللہ تعالی نے انہیں، ان کی صفتوں اور حرکتوں کو اور ان میں موجود ہر شی کو پیدا کیا ہے۔

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: (حاﻻنکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے)۔[96] [سورۂ صافات: 96]۔